امیر المومنین کی عید

57 کلو میٹر دور


گزشتہ دنوں ایک مِیم دیکھی،( مِیم انگریزی کا لفظ ہے، اس سے مراد ایسی تصویر، ویڈیو یا عبارت ہوتی ہے کہ جو انٹرنیٹ صارف بڑی تیزی سے نقل کرکے آگے پھیلاتے ہیں، عرف عام میں اپنے حلقہء احباب کے ساتھ شئر کرتے ہیں۔ میم عموماً مزاحیہ نوعیت کی ہوتی ہیں)۔ 

اس میم میں موجود دو تصاویر میں دو بچے ہیں، جو ایک چلتے  ٹرک کے عقب میں لٹکے ہوئے ہیں اور اوپر عبارت لکھی ہوئی ہے کہ شروع شروع میں تو یہ تفریح ہی تھی، لیکن اب وہ (بچے )اپنے گھر سے 57 کلو میٹر دور پہنچ چکے ہیں۔ تصویر اوپر آپ موجود ہے۔ 

بظاہر اس  مِیم کو دیکھ کر ہنسی ہی آتی ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو  یہ زندگی کی ایک حقیقت کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے۔ تصویر میں موجود بچے ہنسی مذاق میں ایک ٹرک کے پیچھے لٹک گئے کہ کچھ آگے تک جائیں گےا ور  پھر واپس آ جائیں گے، کچھ دل بہل جائے گا، کچھ تفریحِ طبع کا سامان ہو جائے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ ٹرک کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ اُن کے لئے اُترنا مشکل ہو گیا اور وہ اپنے گھر سے 57 کلو میٹر دور پہنچ گئے۔ 

دیکھا جائے تو اپنی اپنی زندگیوں میں ہم بھی ہنسی ہنسی میں کچھ راہوں پر چل پڑتے ہیں یہ سوچ کر  کہ ذرا دل بہل جائے گا، اس میں حرج ہی کیا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان ہنسی کھیل میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ واپسی کا راستہ نظر نہیں آتا۔  کوئی بندھن آپ کے پیروں کی بیڑی بن جاتا ہے، آپ کی کوئی عادت ایسی راسخ ہو جاتی ہے کہ جس کا چھوٹنا کم و بیش ناممکن سا ہو جاتا ہے۔  آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، واپس آنا چاہتے ہیں ،  لیکن واپسی کا رستہ ہی نہیں ملتا۔ 

ایسا تو خیر  نہیں ہے کہ واپس آنے والے واپس آ ہی نہ سکیں، لیکن اس میں  اُنہیں بہت ہمت و استقامت درکار ہوتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ واپس آتے آتے وہ بہت سا وقت، بہت سے رشتے گنوا دیں۔ 

زندگی ایسی ہی شے ہے۔ ہم ہنسی ہنسی میں ایک راستہ اختیار کرتے ہیں اور مزے مزے میں اُس راستے پر چلے چلے جاتے ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اس راستے پر اتنی  دور نکل آتے ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔    یوں کبھی کبھار   ہنسی ہنسی میں کیے گئے فیصلوں   کی ہمیں بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔  

زندگی ایک سنجیدہ معاملہ ہے، غیر سنجیدگی کے ساتھ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ سو بار سوچ لیں۔  

تحریر: ابو ابراہیم

تبصرے